اب متھرا شاہی عید گاہ مسجد کے سروے کو بھی ہری جھنڈی

اب متھرا شاہی عید گاہ مسجد کے سروے کو بھی ہری جھنڈی

.

.

.

 

..

الہ آباد ہائی کورٹ میں متھرا کے شری کرشن جنم بھومی اور شاہی عید گاہ مسجد کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت نے سروے کرانے کو منظوری دے دی ۔ ایک طرف عدالت نے ہندو فریق کی عرضی قبول کر لی ہے ۔ دوسری طرف عدالت نے شاہی عید گاہ مسجد کمیٹی اور وقف بورڈ کے دلائل کو مسترد کر دیا ہے ۔ قبل ازیں ہائی کورٹ کے جسٹس مینک کمار جین نے فریقین کو سننے کے بعد ۱۶ نومبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
جنم بھومی ۔ عید گاہ کیس میں ۱۶ نومبر کو ہوئی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے تمام ۱۸ مقدمات سے متعلق مدعی اور مدعا علیہان کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔ شری کرشن جنم بھومی مکتی نیاس کے چیئر مین مہیندر پرتاپ سنگھ نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ میں دائر ۱۸ مقدمات کی فائلوں کو سماعت کے لیے اپنے دائرہ اختیار میں لے لیا ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ عید گاہ مسجد کمیٹی پارٹی ، جنم بھومی کے فن تعمیر سے کھیل کر ثبوتوں کو تباہ کر رہی ہے ۔ شواہد کو ضائع کرنے سے پہلے ، گیا نواپی کی طرز پر جائے پیدائش کے سروے کا حکم دینے کا ہائی کورٹ سے مطالبہ تھا ۔ دریں اثناء آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے مطابق متھرا کی شاہی عید گاہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ انتہائی افسوسناک اور خطرناک نتائج کا حامل ہوگا ۔

 

 

 

 

 

مسلم پر سنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے آج متھرا کی شاہی عید گاہ کے سروے کی اجازت دے کر نہ صرف 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ یہ فیصلہ ہندو اور مسلمانوں کے در میان 1968 میں ہوئے اس معاہدہ کے بھی خلاف ہے جس کے تحت مقامی ہندو اور مسلمانوں نے 13.37 ایکڑ زمین عید گاہ اور مندر کے درمیان تقسیم کرلی تھی ۔ یہ معاہدہ شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عید گاہ مسجد ٹرسٹ کے درمیان ہوا تھا ، جس کے مطابق 10.9 ایکڑ زمین کرشن جنم بھومی کو اور 2.5 ایکڑ زمین مسجد کے حوالے کی گئی تھی اور یہ بات طے پائی تھی کہ یہ تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح بابری مسجد تنازعہ کے دوران 1991 میں مرکزی حکومت نے عبادت گاہوں سے متعلق ایک قانون منظور کیا تھا تا کہ اس طرح کے تمام تنازعات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔

 

 

 

 

اس قانون کے مطابق ملک کی آزادی 15 اگست 1947 کے وقت جس عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی وہ علی حالہ باقی رہے گی ۔ امید کی جا رہی تھی کہ اب کوئی نیا تنازعہ نہیں پیدا کیا جائے گا لیکن جن عناصر کو ملک میں امن و آشتی سے بیر ہے اور جو ہندو اور مسلمان کے درمیان منافرت پیدا کر کے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں وہ شاید ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ بورڈ کے ترجمان نے شاہی عید گاہ ٹرسٹ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا جس میں اس نے کہا کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گا ۔ آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ اس معاملہ میں عید گاہ ٹرسٹ کی بھر پور مدد کرے گا اور اس کی لیگل کمیٹی ہر طرح کی قانونی مدد پہنچائے گی ۔

 

 

 

 

Scroll to Top