جو دنیا نہ کر سکی وہ غزہ کے عوام کے لیے ایک مصری خاتون نے کرد دکھایا
.
.
..
ایک مصری مصنفہ نے غزہ کی پٹی کے اندر ہزاروں فلسطینیوں کو پٹی کے باہر سے انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی ، جب اسرائیلی حکام نے مقبوضہ علاقوں کے اندر ہونے والی خلاف ورزیوں کی نشریات ، اشاعت یا ترسیل کو روکنے کے لیے جان بوجھ کر سروس منقطع کر دی تھی ۔
مصنفہ میرنا الطلباوی نے اس شعبے میں انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے قائم کیے گئے اقدام کی تفصیلات کا انکشاف کیا ۔ اس نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ” دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنا ایک موروثی انسانی حق ہے ۔ جیسا کہ خوراک اور ادویات بنیادی حق ہے ۔ جیسے ہی ہمیں اسرائیلی حکام کے غزہ کی پٹی میں قتل عام پر عمل درآمد کو آسان بنانے کے لیے انٹر نیٹ سروس منقطع کرنے کے فیصلے کا علم ہوا اور خلاف ورزیوں پر ہم نے ایک متبدل کا سارا نے کا فصلہ کیا واسطینیوں و خدمات فراہم کرتا ہے تاکہ ہم ان کے ساتھ بات چیت کر سکیں اور جان ن سکیں کہ غزہ کے اندر کیا ہو رہا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کا بنیادی مقصد غزہ کی پٹی کے لاکھوں باشندوں کو ایک دوسرے ، ہسپتالوں، میڈیا اور بیرونی دنیا سے رابطہ قائم کرنے کے قابل بنانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مواصلاتی رابطوں کو منقطع کرنے کی پالیسی کا مقصد قتل عام کو چھپانا اور کا عام کا انہیں دنیا کو دکھانے سے روکنا تھا۔ اسی لیے خیال یہ تھا کہ فلسطینی شہریوں کو الیکٹرانک چپس فراہم کر کے انٹر نیٹ سروس فراہم کی جائے ۔ تا کہ غزہ کی پٹی کے اندر خاندانوں ، افراد ر پورٹرز اور میڈیا کے نمائندے اپنے کام لی جگہوں سے بات چیت کر سکیں، اور طبی ٹیمیں بھی اپنے مریضوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں اور غزہ میں ہسپتالوں اور طبی شعبے کے اندر حالات کی حقیقت سے آگاہ کر سکیں ۔
مصری مصنفہ نے تمام ممالک سے سلائیڈز فراہم کرنے کا سہارا لیا اور پلیٹ فارمز اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے اقدام اور خیال کا اعلان کیا۔ اسے دنیا کے تمام شہریوں کی دلچسپی، حوصلہ افزائی اور یہاں تک کہ فراخدلی سے عطیہ دیا گیا اور اس کو ملنے والے تعاون کا سلسلہ 94 ممالک تک پہنچ گیا ۔ اس اقدام میں رضا کاروں کی ایک ٹیم نے شمولیت اختیار کی جو سلائیڈز کو فعال کر رہے تھے اور انہیں غزہ کے لوگوں تک ان کے فون کے ذریعے پہنچا رہے تھے ۔ وہ پہلے ہی موقعے پر دولاکھ فلسطینیوں کو ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹر نیٹ خدمات فراہم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے ۔ الهلباوی کا کہنا ہے کہ چپس کی خریداری کے لیے عطیات 1.3 ملین ڈالر تک پہنچ گئے اور عطیہ دہندگان نے کئی یورپی ، امریکی اور ایشیائی ممالک سے فوری رسپانس کوڈز بھیجے ۔ انہیں فعال کر کے فلسطینیوں میں تقسیم کر دیا گیا