(کشمیر میں گستاخئ رسالت)
ناموسِ رسالت کے دفاع کے لیے مسلمان کب سامنے آئیں گے؟
.
.
.
کشمیر سرینگر کے این۔آئی۔ٹی ادارے میں زیرتعلیم ایک ہندو لڑکے نے بدترین دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اللہ کے محبوب اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہتان تراشی پر مبنی گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر شائع کیا، جس کےخلاف پورے کشمیر کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں، ہم بھی مسلسل اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، لیکن نہایت افسوس کا مقام یہ ہےکہ، کشمیر کےعلاوہ بھارت کے دیگر جگہوں کے "آزاد مسلمان” اور ان کی لیڈرشپ شرمناک طورپر خاموش ہے، جبکہ معاملہ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
اللہ کے رسول کی ناموس کےحق میں لب کشائی کے لیے جن لوگوں کو اتنا انتظار کرنا پڑتا ہے اللہ کے نزدیک اُن کی کیا حیثیت ہوگی؟ اور کل قیامت کے دن ایسے لوگ اللہ کے رسول کو کیا منہ دکھائیں گے؟
شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کےحق میں پورا ہندوتوا خیمہ بےشرمی سے اٹھ کھڑا ہے، لیکن ناموس رسالت کے دفاع کے لیے مسلمانوں کو تذبذب ہورہا ہے؟ یہ کیسی منحوس، مادّی اور مردہ صورتحال ہے؟
کیا اب ہم اور ہمارے مذہبی و سیاسی لیڈران اللہ کے حبیب، ہمارے نبی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے سلسلے میں بھی ہندوتوا طاقتوں سے کمپرومائز کریں گے؟
کشمیر کے اس گستاخانہ واقعے پر ملک کے ہر کونے کے مسلمانوں کو اپنا جائز و منصفانہ ردعمل دینا چاہیے اور ہر ہر ضلع، تحصیل، تعلقہ، محلہ، شہر، خطے، صوبے، اور ملکی لیڈر کو اس کےخلاف آواز اٹھانا چاہیے، اللہ کے رسول کی ناموس میں گستاخی کا مجرم بننے سے خوع کو بچانا چاہیے