ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ یقینی؟ 5 وجوہات جو اس کے خطرناک اعتماد کو ہوا دے رہی ہیں!

ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے صدارتی طیارے سے غزہ کے باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کے خیال پر بات شروع کی تھی اور پھر اس نے اس بات کو دو ملاقاتوں میں صحافیوں سے دہرایا اور اب نتن یاہو سے ملاقات اور پریس کانفرنس میں غزہ پر ہمیشہ کیلئے امریکی قبضے کے منصوبے کا کھل کر اظہار کیا۔
اگرچہ اس تجویز کو اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی اور مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کی طرف سے فوری طور پر سختی سے مسترد کیا گیا۔ اسی طرح، 6 عرب ممالک فلسطین، مصر، اردن، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے اس تجویز کو مشترکہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ کی سرزمین کو اس کے اصل مالکان سے خالی کرانا یا فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا، کسی صورت میں اور کسی بھی جواز کے تحت قبول نہیں کیا جائے گا” اور آج سعودی عرب کا موقف بھی سامنے آگیا۔
لیکن اس کے باوجود ٹرمپ اپنے اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر سو فیصد یقین رکھتا ہے۔ عرب حکام کا زبانی کلامی جمع خرچ اپنی جگہ پر، مگر ٹرمپ کے اس یقین کے پیچھے ٹھوس وجوہات و اسباب ہیں۔ آیئے ان پر روشنی ڈالتے ہیں۔
پہلا: دباؤ ڈالنا:
سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنی تجویز پیش کی تھی، جس میں حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی، امداد کی فراہمی اور اسرائیل کے غزہ سے انخلاء پر مذاکرات کی بات کی گئی تھی۔
یہ تجویز مئی کے مہینے میں سامنے آئی اور ح،م،اس نے علانیہ طور پر اس معاہدے کو قبول کرلیا، لیکن نیتن یاہو کی حکومت نے اسے کو مسترد کردیا۔ مگر بائیڈن اس پر دباؤ ڈال کر اسے قبول نہیں کرا سکا۔ دوسری طرف، ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد، فریقین کو خبردار کیا تھا کہ اگر جنگ بندی نہیں ہوتی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، خاص طور پر 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں میرا اپنے عہدہ سنبھالنے سے پہلے۔
اسی دوران، اس کا نمائندہ اسٹیفن وٹکوف مذاکرات میں خود شامل ہوا اور نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا تاکہ معاہدے کو ٹرمپ کی حلف برداری سے دن پہلے قبول کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں نئی امریکی انتظامیہ کو زیادہ اعتماد حاصل ہوا۔
اب ٹرمپ غزہ پر قبضے کے لیے بھی "اپنے اتحادیوں” پر دباؤ کا کارگر نسخہ آزما سکتا ہے اور دباؤ ہمیشہ نسخۂ کیمیا ثابت ہوتا رہا ہے۔
دوسرا: کولمبیا کا تجربہ:
واشنگٹن میں مختلف حلقوں میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ کولمبیا نے ٹرمپ کے مطالبات کے سامنے کیسے سرنڈر کرلیا اور امریکا سے بے دخل کیے جانے والے اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگیا۔
حالانکہ کولمبیا نے ابتدا میں سختی سے انکار کیا تھا۔ جس کے جواب میں ٹرمپ نے کولمبیا پر محصولات اور انتقامی پابندیاں عائد کیں، جن میں اس کے حکومتی اہلکاروں کے امریکا میں سفر پر پابندی بھی شامل تھی۔
اس کے نتیجے میں کولمبیا کو اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور اس نے اپنے شہریوں کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ کونسل آف فارن ریلیشنز کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر اسٹیفن کک نے غزہ کے باشندوں کو منتقل کرنے کی ٹرمپ کی تجویز پر بات کی اور کہا: "کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ مصر اور اردن کی مخالفت پر قابو پا لے گا، بالکل ویسے ہی جیسے اس نے کولمبیا کے صدر کے ساتھ کیا تھا، جو پہلے کولمبیا کے شہریوں کی واپسی پر راضی نہیں تھا، پھر اس نے اپنے مؤقف کو بدل کر قبول کر لیا۔”
تیسرا: بھاری امداد:
امریکا کے پاس اگلوں کو رام کرنے کے جو ذرائع ہیں، ان میں امداد بھی شامل ہے۔ مصر ہر سال 1.3 ارب ڈالر کی امریکی فوجی امداد سے فائدہ اٹھاتا ہے اور امریکا کے پاس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں ایک طاقتور نشست ہے، جس پر مصر نے پچھلے دہائی بھر میں انحصار کیا ہے اور یہی بات اردن پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ غزہ کے باشندوں کو منتقل کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے،
ٹرمپ نے کہا کہ اس کی حکومت "مصر اور اردن کی بہت مدد کرتی ہے” اور شاید ٹرمپ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ملک کو اردن اور مصر کو امداد (خاص طور پر فوجی امداد) دینے کے بدلے کیا حاصل ہو رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ دہائی میں اردن کے لیے امریکی امداد تین گنا بڑھ چکی ہے، جب کہ امریکا نے پچاس کی دہائی سے اردن کو اقتصادی اور فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔
امریکا کی اردن کے لیے دو طرفہ امداد وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی نگرانی میں ہوتی ہے، یہ امداد مالی سال 2020 تک تقریباً 26.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، یہ بات ایک کانگریسی تحقیقاتی سروس کے مطالعے میں سامنے آئی ہے۔ اسی طرح، 2025 مالی سال کے لیے مختص امریکی بجٹ میں اردن کے لیے 1.45 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔
اسی تناظر میں مصر کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے اب تک جو امداد ملی ہے، وہ 75 ارب ڈالر سے زائد ہے اور 2025ء کے لیے مختص بجٹ مصر کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔
ٹرمپ اپنے بیک گراونڈ میں ایک کاروباری شخصیت ہے، جو سودوں پر یقین رکھتا ہے، اس کی حکومتی پالیسیوں میں بھی یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ وہ جس ملک کو امداد دیتا ہے اس کے بدلے میں اسے کیا مل رہا ہے۔ خاص طور پر ان دو ممالک کے حوالے سے جو دنیا کے سب سے زیادہ تناؤ والے علاقوں میں واقع ہیں۔
چوتھا: مصر کا پیچھے ہٹنا:
ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ 2016ء کے دسمبر میں مصر پر اپنے کامیاب دباؤ کے تجربے کو بھولا نہیں ہے۔ جب ٹرمپ انتخابات جیت کر نیا صدر بنا تھا تو اس وقت مصر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے میں آبادکاری کے جاری عمل کی مذمت کی جاتی۔
اسی دوران، سابق امریکی صدر بارک اوباما کی انتظامیہ نے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ نیتن یاہو نے اس وقت ٹرمپ انتظامیہ سے بات کی اور مصر پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ نے مصر کے صدر السیسی سے بات کی اور اسے قرارداد واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
اس کے بعد فوراً مصر نے اپنا موقف تبدیل کیا اور سلامتی کونسل میں امریکی وفد سے معذرت کی، جس کا سبب یہی ٹرمپ کا دباؤ تھا۔
پانچواں: سفارتخانے کی منتقلی کا تجربہ:
دسمبر 2017 میں، اپنی پہلی مدت کے دوران، ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مئی 2018ء میں افتتاح کیا گیا۔
اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسے اس عمل سے منع کیا گیا تھا اور دھمکیاں دی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے قبل 5 امریکی صدور نے یہ قدم نہیں اٹھاسکے تھے: رونالڈ ریگن، جارج بش سینئر، بل کلنٹن، جارج بش جونیئر اور باراک اوباما، کیونکہ انہیں عرب ممالک کے ردعمل کا خوف تھا۔
حالانکہ ٹرمپ کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کے فیصلوں کے خلاف تھا، لیکن عرب ممالک نے اس فیصلے کے ردعمل میں کوئی ردعمل یا سفارتی اقدام نہیں اٹھایا، جس سے ان کے اعتراض یا فیصلے کی سنگینی ظاہر ہو۔ اگرچہ زبانی کلامی ڈھینگیں بہت ماری گئیں۔
مگر نتیجہ صفر! ان سابقہ تجربات کے پیش نظر ٹرمپ اب بھی عرب حکام کی ڈھینگوں کے باوجود غزہ کے حوالے سے اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر یقین کامل رکھتا ہے۔
تاہم یہ منصوبہ کوئی نیا نہیں ہے۔ نئی بوتل وہی شراب کہن ہے۔ یعنی مسعاف منصوبہ۔ جسے اہل غزہ اپنے خون کی ندیاں بہا کر ناکام بنا چکے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ ان شاءاللہ۔