اسمارٹ فون کی لت پر قابو پانے کا آسان طریقہ
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ عہد میں بیشتر افراد اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فونز پر گزارتے ہیں ۔
یہ ڈیوائس صرف رابطے کے توسط سے نہیں بلکہ ہم اس پر وقت دیکھتے ہیں، کسی جگہ کی تلاش کرتے ہیں ، الارم کے لیے بھی یہ کام آتا ہے ، ٹکٹیں بک کراتے ہیں ، ویڈیوز دیکھتے ہیں ، دوستوں کے ساتھ منصوبے یا پراجیکٹس شیئر کرتے ہیں۔
یہ تو اسمارٹ فونز کے چند طریقہ استعمال ہیں ورنہ اس ڈیوائس سے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اس کی فہرست بہت طویل ہے ۔
مگر اسکرین ٹائم زیادہ ہونے سے صحت پر مختلف منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ وقت الگ ضائع ہوتا ہے ۔
تو کیا اس لت سے بچنے کا کوئی آسان طریقہ بھی ہے ؟
حال ہی میں ایک پوڈ کاسٹ کے دوران میزبان کی جانب سے اس حوالے سے ایک تکنیک کو شیئر کیا گیا تھا ۔
میزبان کا دعوی تھا کہ اس تکنیک سے آپ محض 6 منٹ میں اسمارٹ فون کی لت پر قابو پا سکتے ہیں جبکہ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں 68 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے ۔
میزبان نے بتایا کہ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ محض 6 منٹ تک کسی کتاب کے مطالعے سے تناؤ میں 68 فیصد تک کمی آتی ہے ، تناؤ میں کمی سے ہماری توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت مضبوط ہوتی ہے اور ہمیں فون کو استعمال کرنے کی خواہش کے آگے بند باندھنا آسان محسوس ہونے لگتا ہے ۔
اس کی تحقیق 2009 میں برطانیہ کی Sussex یونیورسٹی نے کی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کتابوں کا مطالعہ صرف خیالات و تخیلات کو بھٹکنے سے ہی نہیں بعض رکھتا، بلکہ ہمارے تخیل کو بھی مصروف رکھتا ہے کیونکہ تحریر کے الفاظ تخیل کو متحرک کرتے ہیں اور اس سے شعوری کیفیت میں تبدیلیاں آتی ہیں ۔
اس حوالے سے دیگر ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور دماغی افعال کے درمیان تعلق کافی پیچیدہ ہے اور فون پر بہت زیادہ وقت گزار نے سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی روک تھام ضروری ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ مطالعے سے ہمارا ذہن متحرک ہوتا ہے اور متعدد تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ یہ عادت ذہنی افعال کو بہتر بنانے کے لیے موثر ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ مطالعے سے نہ صرف ذہن متحرک ہوتا ہے بلکہ مواز نے اور گہرائی میں جاکر تجزیہ کرنے جیسی صلاحیتیں بھی بہتر ہوتی ہیں جبکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق دن بھر میں کم از کم 30 منٹ سے ایک گھنٹے تک مطالعہ کرنے سے ذہن کو فائدہ ہوتا ہے ۔
جہاں تک اسمارٹ فون کی لت بر قا بو مانے کی بات سے تو ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ صحت مندانہ تعلق سے بھی ذہنی افعال متحرک ہوتے ہیں، مگر جب یہ لت بن جائے تو مطالعے سے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔